
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ آئین کی دفعہ 62، 63 کا مخالف ہوں، چاہیں تو انہیں نکال کر پھینک دیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ آئین کی ان دفعات کا من پسند استعمال کیا جائے۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ آئین کی دفعہ 62، 63 آمریت کے دور کی نشانیاں ہیں جسے جمہوریت کے خلاف استعمال کیا گیا۔
ملک محمد احمد خان نے کہا کہ مجھ پر بڑا الزام یہ تھا کہ میں اپوزیشن کو زیادہ وقت دیتا ہوں، میں نے ہمیشہ ایک اچھے کسٹوڈین کا کردار ادا کیا، کچھ ارکان اسمبلی کو معطل کیا اور کچھ کو نوٹس بھجوائے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے سوال اٹھایا کہ میں ریفرنس بھجوا سکتا ہوں یا نہیں، میری رولنگ کے خلاف بہت کچھ کہا گیا، بہت کچھ لکھا گیا۔

اپوزیشن کا ملک محمد احمد خان پر مائیک توڑنے کا الزام، اسپیکر کا اظہارِ برہمی
گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے ہونے والے اجلاس کے دوران اپوزیشن نے اسپیکر اسمبلی پر مائیک توڑنے کا الزام عائد کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پانامہ کیس کے فیصلے میں آصف سعید کھوسہ نے اسپیکر کو یہ اختیار دیا کہ وہ نشست کو خالی قرار دے، اگر وزیراعظم کو غلط بیانی پر نااہل کیا جاسکتا ہے تو ایوان کو تماشا بنانے والوں کو کیوں نہیں؟ کیا ان لوگوں کا دماغ کام کر رہا ہے جو میرے ریفرنس پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ یہ مانتا ہوں کہ ایوان میں ہنگامہ آرائی ہو سکتی ہے مگر اسے آرڈر آف دی ڈے نہیں بنایا جا سکتا، اگر کوئی رکن حلف سے رو گردانی کرے گا تو دفعہ 62، 63 کا اطلاق ہو گا، یہ اسپیکر کا اختیار ہے، ایوان کے معاملات سے باہر والوں کا کوئی تعلق ہی نہیں۔
نوٹ: یہ ابتدائی خبر ہے، اس میں مزید معلومات شامل کی جارہی ہیں۔