
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دے دیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے خط لکھ کر صدارتی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، انہوں نے جسٹس منیب اختر کے کمیٹی سے اخراج پر سوال اٹھایا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ کے خط پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوابی خط لکھا ہے۔

چیف جسٹس کے 9 سوالات پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب بھیج دیا
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ سے 14 ستمبر کے حکم پر 9 سوالات پوچھے گئے تھے، جس پر رجسٹرار نے جواب بھیجا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے لکھے گئے خط کے مندرجات تاحال سامنے نہیں آ سکے ہیں تاہم انہوں نے جسٹس منیب اختر کو کمیٹی میں شامل نہ کرنے کی 11 وجوہات بتائی ہیں۔
خط میں چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ سینئر ججز سے جسٹس منیب کا رویہ انتہائی درشت تھا، ایسا جسٹس منصور آپ کے اصرار پر کیا گیا، قانوناً آپ اس بات پر سوال نہیں اٹھا سکتے کہ چیف جسٹس کس جج کو کمیٹی میں شامل کرے چونکہ میں ہمیشہ احتساب اور شفافیت کی حمایت کرتا رہا ہوں، میں وجوہات فراہم کروں گا۔
چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ میں وجوہات فراہم کروں گا کہ جسٹس منیب اختر کو کیوں تبدیل کیا گیا، یہ یاد رہےکہ میں یہ آپ کے اصرار پر کر رہا ہوں، تاکہ کوئی ناراض نہ ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس منیب اختر نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سخت مخالفت کی تھی، جسٹس منیب ان 2 ججوں میں تھے جنہوں نے مقدمات کے بوجھ سے لاپرواہ ہو کر گرمیوں کی پوری تعطیلات کیں، وہ تعطیلات کے دوران عدالت کا کام کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ تعطیلات پر ہونے کے باوجود انہوں نے کمیٹی میٹنگز میں شرکت پر اصرار کیا، جو کہ اگلے سینئر جج جسٹس یحییٰ پر ان کا عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے۔