
سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) نے مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی درخواستیں منظور کر لیں، پی ٹی آئی فیصلے کے بعد مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی۔
عدالت عظمیٰ کے آئینی فل بینچ نے نظرِ ثانی درخواستوں پر فیصلہ دیا اور جسٹس امین الدین خان نے مختصر فیصلہ سنا دیا، جس کے مطابق مخصوص نشستیں ن لیگ، پی پی اور دیگر جماعتوں کو ملیں گی۔
سپریم کورٹ میں نظرِ ثانی درخواستوں پر آج 17 ویں سماعت تھی، سپریم کورٹ کے 6 ججز کے مقابلے میں 7 ججز کی اکثریت نے نظرِثانی درخواستیں منظور کر لیں۔
7 ججز میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عامر فاروق، جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔
فیصلے میں جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے مشروط طور پر نظر ثانی درخواست منظور کی جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اپنے مرکزی کیس کے فیصلے پر قائم رہے۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اقلیتی فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔
آج کی سماعت کے دوران جسٹس صلاح الدین پنہور نے کیس سننے سے معذرت کی جبکہ پہلے ہی آئینی بینچ سے جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی الگ ہو گئے تھے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے 12 جولائی 2024ء کو 8 ججز کی اکثریت سے نشستیں پی ٹی آئی کو دیں، اس فیصلے کے خلاف ن لیگ اور پی پی نے الیکشن کمیشن میں نظرِ ثانی درخواستیں دائر کیں۔
کیس کے دوران سنی اتحاد کونسل کی طرف سے فیصل صدیقی اور حامد خان نے دلائل دیے جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے سلمان راکرم راجہ پیش ہوئے جبکہ الیکشن کمیشن، ن لیگ اور پی پی اپنی تحریری معروضات جمع کرائیں۔
سماعت کے اختتام کے بعد پی ٹی آئی رہنما کنول شوذب روسٹرم پر آ گئیں اور کہا کہ میرے دو تین نکات ہیں وہ گوش گزار کرنا چاہتی ہوں۔
اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ یہ فیصلہ آپ نے کیوں لیا کہ آپ سنی اتحاد میں جائیں؟
کنول شوذب نے جواب دیا کہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ کو بلا چھینا گیا، 13 جنوری کو ہمارے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے۔
وکیل مخدوم علی خان کے دلائل
مخصوص نشستوں کے کیس میں متاثرہ خواتین کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ متعدد فیصلوں میں قرار دے چکی کہ غیر آئینی بنیاد پر دیے گئے فیصلے برقرار نہیں رہ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس کو آرٹیکل 17 کے بنیادی حق سے جوڑا گیا، پی ٹی آئی اس عدالت میں نہیں آئی تھی، سنی اتحاد کونسل میں شامل کسی رکن نے عدالت آ کر نہیں کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے ہیں، جن غیر معمولی حالات کا ذکر اکثریتی فیصلے میں ہوا ایک سیاسی جماعت غیر معمولی طور پر اس کا ذکر کرتی رہی۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کئی نظائر ہیں، اگر ایک کام ایک انداز میں کیا جائے تو ضروری نہیں وہ دوبارہ ویسے ہی ہو، ماضی میں علیحدگی میں کیے گئے اقدام کو آئین اور قانون سے بالا نہیں قرار دیا جا سکتا۔
اُن کا کہنا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے ہر فورم پر کہا کہ مخصوص نشستیں ہمیں دیں اور کوئی فہرست بھی جمع نہیں کرائی، اکثریتی جج نے پی ٹی آئی کو فریق قرار دے کر قانونی غلطی کی، جس ڈگر پر 8 اکثریتی ججز چل پڑے یہ بہت خوفناک مثال بنے گی۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں کہیں آرٹیکل 184 تھری کا تذکرہ نہیں ہے، اکثریتی فیصلے میں کوئی نظیر نہیں دی گئی جس میں اس فریق کو انصاف دیا گیا ہو جو عدالت ہی نہیں آیا، طریقہ کار پر عمل درآمد ہی آئین کی منشاء ہے، دائرہ اختیار کو ریگولیٹ کرنے کا آئینی طریقہ کار فالو ہونا ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے اکثریتی فیصلے کی غلطیوں پر توجہ دلائی
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا کہ عدالت کی 27 اے کے نوٹس پر معاونت کروں گا اور میں اکثریتی فیصلے میں کی گئی غلطیوں پر توجہ دلاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ اکثریتی فیصلہ رول 94 کی بنیاد پر دیا گیا، رول 94 پر اٹارنی جنرل کو 27 اے کا نوٹس نہ کرنے پر یہ فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا، سنی اتحاد کونسل نے رول 94 کو چیلنج نہیں کیا تھا۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ کے ججز نے کیا کہا؟
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ایک تاثر یہ دیا گیا جیسے خواتین کو ان کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے، خواتین سے نشستیں لے کر مردوں کو نہیں دی گئیں، پی ٹی آئی نے کبھی مخصوص نشستوں کا دعویٰ نہیں کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے خواتین کے حق کے لیے بھی انصاف کیا تھا، اکثریتی فیصلہ مکمل انصاف کے تقاضوں کی بنیاد پر تھا، ہم نے مکمل انصاف الیکٹوریٹ کے حق کو دیکھ کر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تو دیکھا ایک جماعت غلط جانب نکل گئی تو ہم نے عوام کا جمہوری حق دیکھا، سلمان اکرم راجہ کی سائلہ کنول شوذب نے تو پی ٹی آئی چھوڑ کر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں بتاتا ہوں میں نے کاغذات نامزدگی دیکھے، جو کاغذات دیکھے 14 امیدواران کے پارٹی سرٹیفکیٹ اور ڈکلئیریشن تھے، باقی 25 نے خود لکھا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے اراکین ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس طرح 39 بنے، 41 میں سے 10 ایسے تھے جنہوں نے کچھ نہیں لکھا تھا، باقی 31 نے خود ہوش و حواس میں لکھا کہ وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پشتو کہاوت کے مطابق ایک شخص نے کسی کو بیل چار یا پانچ دن کے لیے دیا،جب وہ شخص بیل واپس لینے گیا تو بیل لینے والے نے بیل اور مالک کو بھی گالیاں دیں، اس وقت مالک بولا یہ میری غلطی ہے نہ بیل دیتا نہ آج گالیاں سنتا، پی ٹی آئی والا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ہم نے وہ دے دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا تو پھر ہمیں بھی گالیاں پڑ رہی ہیں۔
دورانِ سماعت جسٹس علی باقر نجفی نے سوال اٹھائے کہ عوام کے حقِ رائے اور ووٹ کے حق میں انصاف کا اسکوپ کیا ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے جس آئینی انحراف کا ذکر کیا وہ کہاں ہوا؟ الیکشن کمیشن نے آئین سے انحراف کہاں کیا؟
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ یعنی آپ کہہ رہے ہیں مخصوص نشستوں کے لیے پی ٹی آئی الیکشن کمیشن نہ ہائی کورٹ گئی، واضح ہوا کہ پی ٹی آئی موقع ملنے کے باوجود سپریم کورٹ نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ فیڈرل لاء کے مطابق عدالت خود کسی کیس میں فریق نہیں بن سکتی، پی ٹی آئی نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے، غلطی ان کے وکیلوں کی تھی، جن کو مزید تربیت کی ضرورت ہے، میں نے مرکزی کیس میں پوچھا تھا رول 94 چیلنج کیا گیا یا نہیں۔
دورانِ سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ باپ پارٹی نے بلوچستان میں حکومت بنائی تھی، کوئٹہ کا ایک کیس اس نکتے پر طے ہوا کہ نوٹری پبلک کے پاس لائسنس نہیں تھا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس جماعت کو ریلیف دیا گیا جو ہمارے سامنے فریق نہیں تھی، سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 184 تھری کو آرٹیکل 185 تھری کے ساتھ استعمال کر کے یہ کیا جا سکتا تھا؟
انہوں نے کہا کہ 80 میں سے 39 میں سے کسی نے سیکشن 66 کے ٹیسٹ کو پورا کیا؟ سیکشن 66 پارٹی میں شمولیت اور ڈیکلریشن سے متعلق ہے۔
نظرِ ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ باپ پارٹی سے جو الیکشن کمیشن کا کنڈکٹ تھا اس پر آپ کا مؤقف کیا ہے؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پی ٹی آئی کی طرح سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن کمیشن میں دی تھیں؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی درخواست میں لکھا ہی نہیں کہ وہ فریق بننا چاہتی ہے، کیا پی ٹی آئی نے کسی سطح پر کہا کہ خوف کے سبب پارٹی وابستگی ظاہر نہیں کر سکے؟